twitter



خیالات کے منتشر ہجوم کو صفحۂ قرطاس پر بکھیرنا کس قدر دشوار ہے اور جذبات کے تلاطم کو اوراقِ ہستی پر رقم کرنا کتنا مشکل؟ اس کی قلعی مجھ پر آج کھلی ۔سوچ رہا ہوں کیا لکھوں ۔۔ کیسے لکھوں ۔۔ الفا ظ ہیں کہ دیارِ دل سے کنارِ لب تک آتے آتے خود ہی دم توڑ جاتے ہیں ۔۔۔ خیالات کا ایک بحرِ بے کراں ہے کہ نوکِ قلم تک آنے سے پہلے ہی ذہن کی لامحدود وسعتوں میں کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے ۔ جب لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو لکھ نہیں پاتا۔۔۔ ایک طرف ناآسودہ خواہشات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے تو دوسری طرف تشنہ بہ تکمیل تمناؤں کا اک جمِ غفیر۔ ۔۔ اور ذہن ہے کہ اسی ہجوم ِغم میںکہیں الجھ کر رہ جاتا ہے ۔ پھر اسی ذہن کی ڈھونڈتے ڈھونڈے میں خود بھی اسی ہجومِ غم میں کہیں کھو کر رہ جاتا ہوں ۔۔ !
پھر اک نئے سفر کی ابتدا ہوتی ہے اورمیں خود ہی کی تلاش کے ایک لا متناہی سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہوں ۔ ۔۔ میں خود کو کھوجنا چاہتا ہوں۔۔ خود کو پہنچاننا چاہتا ہوں ۔۔۔ مگر میں خود کو ڈھونڈھ نہیں پاتا۔۔۔ اور میں خود کو خود ہی کے اس شعر کا مصداق پاتا ہوں۔۔۔!
وہی سنسان رستے ہیں ، وہی گمنام منزل ہے
چلا تھا جس جگہ سے میں اسی رہ پر کھڑا ہو ں پھر

محمد ذیشان نصر (کیفیت نامہ روزِ ہذا)
Thursday, October 31, 2013 | 0 comments | Labels:

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے نیچے والے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔ سکرین کی بورڈ کا استعمال کرنے کے لئے نیچے دیے گئے کی بورڈ کے چھوٹے سے آئی کون پر کلک کریں۔ شکریہ۔