درد سا اک ،جو یاں سے اٹھتا ہے
کون جانے ؟کہاں سے اٹھتا ہے ؟
منکشف ہوتی ہے حقیقت پھر
پردا جب ،درمیاں سے اٹھتا ہے
چوٹ پڑتی ہے جب، نئی دل پر
’’زلزلہ، جسم وجاں سے اٹھتا ہے ‘‘
کسی بلبل کا دل جلا ہے کہیں
دھواں، کیوں آسماں سے اٹھتا ہے؟
تھم گئی کائنات ،پھر کیوں آج؟
شور کیوں ،لا مکاں سے اٹھتا ہے ؟
بے خبر! کچھ خبر ہے تجھ کو کہ آج
عشق آخر ،جہاں سے اٹھتا ہے
پوچھ مت مجھ سے حالِ دل، کہ کہیں
’’شعلہ، آتش فشاں سے اٹھتا ہے ‘‘
وجد میں آتے ہیں ملائک ،جب
ساز میری ، فغاں سے اٹھتا ہے
کھول مت رازِ عاشقی ہمدم
بوجھ کب ،رازداں سے اٹھتا ہے
طفلِ مکتب ہوں،کیا مری اوقات
شعر خود ہی زباں سے اٹھتا ہے
چیردیتا ہے پھر دلِ معصوم
تیر جب بھی کماں سے اٹھتا ہے
توڑ جائیں نہ دل کہیں ، ذیشاںؔ
اعتبار ان بُتاں سے اٹھتا ہے
(محمد ذیشان نصر)
January 1, 2012 at 7:19 PM
ماشاء اللہ کیا خوبصورت غزل ہے ۔۔۔