اجنبی شہر کے اجنبی راستے
میری تنہائی پر مسکراتے رہے
میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا
تم بہت دیر تک یاد آتے رہے
زہر ملتا رہے، زہر پیتے رہے
روز مرتے رہے، روز جیتے رہے
زندگی ہمیں آزماتی رہی
اور ہم بھی اسے آزماتے رہے
زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا
زندگی کی طرف اک دریچہ کھلا
ہم بھی گویا کسی ساز کی تار ہیں
چوٹ کھا تےرہے، گنگناتے رہے
کل کچھ ایسا ہوا، میں بہت تھک گیا
اس لئے سن کہ بھی ان سنی کر گیا
کتنی یادوں کہ بھٹکے کارواں
دل کے زخموں کے در کھٹکھٹاتے رہے
اجنبی شہر کے اجنبی راستے
میری تنہائی پر مسکراتے رہے
0 comments: