twitter


میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
قرعہ ء فال مرے نام کا اکثر نکلا

تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا

میں نے اس جان ِ بہاراں کو بہت یاد کیا
جب کوئی پھول میری شاخِ ہنر پر نکلا

شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا

تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن
مجھ سے تنہا کے مقابل تیرا لشکر نکلا

میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فراز
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا
احمد فراز
Friday, December 28, 2012 | 0 comments | Labels:

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے نیچے والے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔ سکرین کی بورڈ کا استعمال کرنے کے لئے نیچے دیے گئے کی بورڈ کے چھوٹے سے آئی کون پر کلک کریں۔ شکریہ۔