شاعری اور ہم
یہ ان دنوں کی با ت ہے جب ہماری دسویں کلاس کے امتحان ہمارے سر پر تھے اورہمارے والدین ہمیں امتحانات کی تیاری کا کہہ کہہ کر عاجز آ چکے تھے مگر مجال تھی کہ ہمارے کانوں پر جوں تک بھی رینگ جائے ۔۔۔ !انہی دنوں شاید ہمیں کسی خوبرو کی نظر لگی یا کسی بدخواہ کی بددعا ۔۔کہ ہم پر شاعری کا بھوت سوار ہو گیا ۔۔۔ مہم جوئی تو ہماری فطرت کا خاصہ ہے ۔۔۔ سو سامانِ حرب(کاغذ ،قلم) سے لیس ہو کر قلعۂ شاعری کو تسخیر کرنے کیلیے نکل کھڑے ہوئے ۔۔۔ مگریہ کیا ۔۔۔ غزل یا نظم کہنا تو درکنار ۔۔۔ ہم سے تو ایک آدھ شعر ہی نہ بن پایا ۔۔۔ ۔۔ اگر کہیں کوئی ایک آدھ مصرع ذہن میں آتا ۔۔۔ تو دوسرا مصرع نہ بن پاتا۔۔۔ ۔ اور اگر کبھی کھینچ تان کر کوئی شعر مکمل کر ہی لیتے ۔۔۔ تو مزید اشعار کہنے پر قدرت نہ ہوتی ۔۔ ۔۔۔ ! تو اس صورتحال پر ہم سخت تشویش میں مبتلا ہو گئے ۔۔ ۔۔۔ سو اس مسئلہ کے حل کے لئے جب ہم سوچ و بچار کے عمیق سمندر میں غوطہ زن ہوئے ۔۔۔ تو ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ شعر گوئی کے لئے وسعتِ مطالعہ اور حساس طبیعت کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیتوں کی بھی اَشد ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔ مگر ہماری ذاتِ با برکات ان تمام صفاتِ کاملہ سے بالکل کَوری تھی ۔۔۔ ۔ سو ہم نے اس کا ایک یہ شارٹ کٹ طریقہ نکالا ۔۔۔ ۔ کہ کبھی خود کو اقبال تصور کرتے ۔۔۔ ۔ کہ شاید اس طرح کہیں اقبالؒ کی روح ہم میں حلول کر جائے ۔۔۔ اور ہم کچھ اشعار کہنے کے قابل ہو جائیں۔۔۔ !اور کبھی خود کو غالب گردانتے کہ شاید اسی طرح ہی غیب سے کچھ مضامین کی آمد ہو جائے ۔۔۔ ! مگر ہنوز ۔۔۔ دلی دور است۔۔۔ !
والد صاحب ہمیں اس حال ِ بے حال میں دیکھ کر سمجھے کہ شاید اُن کی کوئی نصیحت اثر کر گئی ہے اور موصوف پڑھائی میں مصروف ہیں جبکہ والدہ کا خیال تھا کہ ان کا کیا گیا وظیفہ رنگ دکھلا گیا ہے ۔۔۔ مگر حقیقتِ حال سے تو ۔۔۔ میں واقف تھا۔۔۔ یا پھر میرا خدا۔۔۔ !
ہمارے ایک قریبی شاعر دوست تھے جن کا نام میں بوجوہ نہیں لکھ رہا۔۔۔ سے جب ہم نے اپنی پریشانی کا ذکر کیا ۔۔۔ ۔اور اُن سے مشورہ چاہا ۔۔۔ تو انہوں نے ہمیں ، اقبال ،غالب اور میر جیسے بڑے بڑے شعراء کے کلام کے مطالعہ کا مشورہ دیا۔۔۔ اُن کے قیمتی مشورہ کی پیشِ نظر ہم نے پبلک لائبریری سے دیوانِ غالب کا ایک نسخہ اڑایا ۔۔۔ ۔اور گھر پہنچ کر غالب کے اشعار کو سمجھنے کی سعی ناتمام فرمانے لگے ۔۔۔ مگر کہاں ہم جیسا کج فہم اور کہاں غالب جیسا زبان داں ۔۔۔ ۔جب کچھ بھی ہمارے پلے نہ پڑا۔۔۔ ۔ تو ہم پھر سے اپنے اُسی شاعر دوست کے گھر جا دھمکے۔۔۔ اور کہا کہ بھائی ۔۔۔ ہمیں دیوانِ غالب پڑھا ؤ۔۔ ۔۔تو موصوف فرمانے لگے۔۔۔ کہ مجھے تو خود دیوانِ غالب کا ایک شعر بھی سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔ تو میں نے حیرانی سے استسفار کیا ۔۔۔ کہ پھر آپ شاعر کیسے بن گئے ۔۔۔ ۔ ؟تو پہلے تو اُنہوں نے ٹال مٹول سے کام لیا۔۔۔ ۔ پھر میرے اصرار پر رازدانہ لہجے میں کہنے لگے ۔۔۔ ! ارے میاں ۔۔۔ بازار سے کسی گمنام شاعر کی کتاب خریدو ۔۔۔ اور اس کی غزلوں کو اپنے نام کے ساتھ لوگوں میں پڑھنا شروع کر دو۔۔۔ ! اس طرح تم آسانی سے لوگوں میں شاعر مشہور ہو جاؤگے۔۔سو ہم نے اپنے محسن دوست کا شکریہ ادا کیا ۔۔۔ ۔اوردل و جان سے اس کے بتائے ہوئے نسخۂ کیمیا پر عمل پیرا ہو گئے ۔۔۔ ۔ اور جلد ہی ارد گرد کے لوگوں میں کافی مقبول ہوگئے ۔۔۔ ! اور اس دن تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔۔۔ جب ہمیں ضلعی سطح پر ایک مشاعرے میں مدعو کیا گیا۔۔۔ سو مقررہ تاریخ کو ہم نے خوبصورت لباس زیب تن کیا ۔۔۔ اوراک پُر وقار انداز میں محفلِ مشاعرہ میں پہنچ گئے ۔۔۔ مشاعرہ شروع ہوا۔۔۔ مختلف شعراء نے اپنا کلام پیش کیا۔۔۔ آخر ہماری باری بھی آ گئی ۔۔۔ ہم بڑی شان اور تمکنت کے ساتھ اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے ۔۔۔ اور ایک غزل ترتم کے ساتھ پڑھنی شروع کی ۔۔۔ ۔ تو حاضرین عش عش کر اُٹھے۔۔۔ ہم نے داد طلب نگاہوں کے ساتھ جب صدرِ مشاعرہ کی طرف دیکھا ۔۔۔ تو انہیں غضب ناک نگاہوں کے ساتھ ہمیں گھورتا پایا۔۔۔ ہم حیران ہوئے کہ الٰہی ماجرا کیا ہے ۔۔۔ ؟ خیر جب ہم اسٹیج سے واپس تشریف لے گئے ۔۔!اور صدرِ مشاعرہ اسٹیج پر رونق افروز ہوئے ۔۔۔ ۔۔تو انہوں نے سب سے پہلے میری تعریف کی پھر دھیمے لہجے مستسفر ہوئے کہ یہ غزل آپ نے کب کہی ؟۔۔۔ ۔ تو ہم نے بڑے فخریہ انداز میں جواب دیا کہ۔۔۔ ۔ کل رات ہی خاص طور پر اس مشاعرہ کیلئے فی البدیہہ کہی ہے ۔۔۔ ! اس پر انہوں نے ہماری پیدائش سے بھی پہلے کی اپنی مطبوعہ کتاب نکالی۔۔۔ کتاب پر نظر پڑتے ہی ہمارے اوسان خطا ہو گئے ۔۔۔ کیونکہ وہ وہی کتاب تھی ۔۔ جس سے ہم نے غزل سرقہ کرکے مشاعرے میں سنائی تھی۔۔۔ !بس کچھ نہ پوچھئے پھر کیا ہوا۔۔۔ ۔ اس وقت یہ مصرع ہم پر پوری طرح صادق آتا تھا۔۔۔ ؏
بہت بے آبروہو کر ترے کوچہ سے ہم نکلے
مگر اس قدر رسوائی کے بعد بھی طبیعت کی جولانی نے ہمیں ہار نہ ماننے دی۔۔۔ اب کی بار ہم نے یہ تہیہ کر لیا۔۔۔ کہ خود ہی شعر کہیں گے ۔۔۔ اصل میں ہم نے کہیں پر یہ پڑھا تھا کہ شاعری دو طرح کی ہوتی ہے ۔۔۔ !ایک وہ جو غالب کی طرح غیب سے مضامین خیال میں آتے ہیں ۔۔۔ ۔۔اور دوسری وہ جس میں خود شاعر اپنے احساسات کو اشعار کے پیراہن میں ڈھالتا ہے ۔۔ ۔۔۔ سو اوّل الذکر تو ہماری پروازِ فکری سے بہت بلند تھی ۔۔۔ البتہ مؤخر الذکر پر طبع آزمائی کرنے میں کوئی حرج نہ تھا۔۔۔ ۔۔سو کافی دنوں کی مغز ماری کہ بعد آخر ہم ایک شعر کہنے میں کامیاب ہو ہی گئے ۔۔۔ اب مسئلہ اُسی زمین میں مزید اشعار کہنے کا تھا۔۔۔ سو اس کے لئے سب سے پہلے ہم نے قافیہ پیمائی کی ۔۔۔ اور اس زمین کے ممکنہ قوافی تلاش کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے ۔۔۔ اس کے بعد ان قوافی کو ردیف کے ساتھ جوڑ کر۔۔۔ شعر کا مصرعہ ٔثانی بنانے کی کوشش کرنے لگے ۔۔۔ ۔ اور جلد ہی تقریبا سات عدد ہاف اشعار کہہ لیے ۔۔۔ ہاف اس لئے کہ کیونکہ صرف مصرعۂ ثانی ہی کہا تھا۔۔۔ مصرعہ اوّل ابھی تمام اشعار کا باقی تھا۔۔۔ !اب کے مصرعۂ اول کہنا ہمارے لئے دردِ سر تھا۔۔۔ ۔قصہ مختصر ۔۔ آخر کافی دنوں کی ریاضت کے بعد ہم ایک عدد غزل کہنے میں کامیاب ہو ہی گئے ۔۔۔ ۔ ! اس وقت ہماری خوشی دیدنی تھی ۔۔۔ ۔ اب ہر شاعر کی طرح یہ فکر پڑی کہ جلد از جلد اپنی غزل کسی کو سنا کر اس سے داد وصول کی جائے۔۔۔ ۔ سو سب سے پہلے اُسی شاعر دوست کا تصور ذہن میں اُبھرا۔۔۔ ۔ اور ہم اگلے ہی لمحے اس دوست کے دروازے پر دستک دے رہے تھے ۔۔۔ ۔ اگرچہ اس وقت رات کے 2 بج رہے تھے مگر ہم اس کی پرواہ کب تھی ۔۔۔ ۔ کافی دیر بعد کہیں جا کر اُس نے دروازہ کھولا۔۔۔ ۔ خیریت تو ہے اتنی رات گئے تم ۔۔۔ ۔ یہاں۔۔۔ وہ نیم غنودگی کی حالت میں بولا۔۔۔ ۔ ہاں ہاں خیریت ہے ۔۔۔ یار ابھی ابھی میں نے زندگی کی پہلی غزل لکھی ہے سوچا تمہیں سنا لوں۔۔۔ ۔ میں نے بڑے پرجوش لہجے میں اسے یوں بتایا۔۔۔ جیسے کہ کوئی پہاڑ سر کر کے آ رہا ہوں ۔۔۔ ۔ یا پھر خزانۂ قارون کی چابیاں مجھے مل گئی ہوں۔۔۔ ! خیر اس نے بادل نخواستہ مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا ۔۔۔ اور بولا کہ یار تم صبح آ کر بھی تو غزل سنا سکتے تھے۔۔۔ ۔ تو میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔۔۔ اصل میں میں اس قدر پر جوش تھا کہ کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا۔۔۔ ۔۔پھر اُس نے کہا کہ غزل سناؤ اور خود ہمہ تن گوش صوفے پر دراز ہو گیا۔۔۔ ۔! بس اذن ملنے کی دیر تھر ۔۔۔ ۔۔پھر ہم نے آنکھیں بند کیں ،آواز میں تھوڑا سوز پیدا کیا اوربڑے ترنم کے ساتھ غزل پڑھنی شروع کی۔۔۔ مطلع پڑھنے کے بعد جب ہم نے داد طلب نگاہوں سے اپنے دوست کی طرف دیکھا۔۔۔ ۔ تو موصوف حالتِ استغراق میں آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے ۔۔۔ ہم بہت خوش ہوئے کہ ہمارے دوست ہماری شاعری بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ سُن رہے ہیں ۔۔۔ ۔ ہم نے اور زیادہ سوز کے ساتھ غزل پڑھنی شروع کی ۔۔۔ ! جب مقطع پر پہنچے تو دوست کے خراٹوں کی آواز نے ہمیں چونکا دیا۔۔۔ ۔! ہم نے آنکھیں کھولیں ۔۔۔ ۔ تومعلوم ہوا کہ موصوف تو بیٹھے بیٹھے ہی سو گئے ہیں۔۔۔ ۔ بس کچھ نہ پوچھئے اس وقت ہماری کیا حالت ہوئی۔۔۔ ۔ دل تو کیا تھا کہ اسے کچا ہی چبا جائیں ۔۔۔ ۔مگر ظالم کے بچوں پر ترس آ گیا ۔۔۔ خیر دل پر جبر کرتے ہوئے ہم اپنے گھر کو عازمِ سفر ہوئے۔۔۔ !
گھر آکر ہم نے اس سانحہ پُر ملال کو بھلانے کیلئے مستقبل کی پیش بندیوں میں سوچ و بچار کے گھوڑے دوڑا دئیے ۔۔۔ ! اسی دوران نیند نے آ دبوچا۔۔۔ ! خیر اسی طرح شب روز گزرتے رہے ۔۔۔ ۔اور ہم بجائے پیپروں کی تیاری کے بزعمِ خود میدانِ سخنوری میں اپنی شہسواری کے جھنڈے گاڑھتے رہے۔۔۔ ۔ اُس دن ہمارا ٓخری پیپر تھا ۔۔۔ ۔ اور ہم پہلے کی طرح خود کو ثانیٔ غالب سمجھتے ہوئے ایک زبردست غزل (بزعم خود )کہنے میں اس قدر منہمک تھے کہ ہمیں والد صاحب کی آمد کا پتہ تک نہ چلا۔۔۔ ۔والد صاحب نے کھنکار کر ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔ ۔ تو ہم عالمِ محویت سے سے باہر نکل کر حیرت و استعجاب سے والد صاحب کو دیکھنے لگے جن کی شعلہ بار نگاہیں ہمارے دیوان کا طواف کر رہی تھیں۔۔۔ ۔!والد صاحب نے مجھ سے مجھ سے میرا رجسٹر لیا۔۔۔ (جسے میں اپنا دیوان گردانتا تھا)۔۔۔ ایک دو صفحات پڑھے اور لے کر میری والدہ کی طرف چل دئیے۔۔۔ ۔ جوکھانے پکانے کے لئے چولہے میں لکڑیاں ڈال کر آگ لگانے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔۔ ۔ میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا۔۔۔ ۔۔ کہ شاید والد صاحب میری شاعری سے بہت متاثر ہوئے ہیں اور اب والدہ کو سنانے جا رہے ہیں ۔۔۔ ۔۔ مگر میری یہ خوش فہمی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی ۔۔۔ ۔ !
بس اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ نہ مجھ میں بیان کرنے کی سکت ہے ۔۔۔ ۔ اور نہ ہی آپ میں سننے کی ہمت ہو گی۔۔۔ ! بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اس دن ہمارے دیوان ہی سے گھر کی روٹیاں پکی تھیں ۔۔۔ سو اُس دن سے شاعری ہمارے لئے شجرِ ممنوعہ ٹھہری اور اس طرح حوادثِ زمانہ نے نسلِ نَو کو اک اور غالب سے محروم کر دیا۔۔۔ !
26/02/2013
بتحریر ۔۔۔ محمد ذیشان نصر ۔۔۔ لاہور